Icon Icon

Friday, February 20, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.007

Surat Al-Baqarah

تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

 (١) گناہوں کی دنیوی سزا سلب توفیق :
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ کفر اور ہر گناہ کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی مگر بعض گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی مل جاتی ہے پھر دنیا کی سزا بعض اوقات یہ شکل اختیار کرتی ہے کہ اصلاح حال کی توفیق سلب ہوجاتی ہے، انسان آخرت کے حساب وکتاب سے بےفکر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑہتا چلا جاتا ہے اور اس کی برائی کا احساس بھی اس کے دل سے جاتا رہتا ہے ایسے حال کے متعلق بعض بزرگوں کا ارشاد ہے ان من جزاء السۃ السیۃ بعدھا وان من جزاء الحسنۃ الحسنۃ بعدھا یعنی گناہ کی ایک سزا یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے جس طرح نیکی کا نقد بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے،
اور ایک حدیث میں ہے کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور جس طرح سفید کپڑے پر ایک سیاہ نقطہ انسان کو ناگوار نظر آتا ہے پہلے نقطہ گناہ سے بھی انسان پریشان ہوتا ہے لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کرلیا تو ایک دوسرا نقطہ سیاہ لگ جاتا ہے ، اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہوجاتی ہے، اور اب اس کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ نہ کسی اچھی چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے نہ بری چیز کو برا غرض نیکی بدی کا امتیاز اس کے دل سے اٹھ جاتا ہے اور پھر فرمایا کہ اسی ظلمت وسیاہی کا نام قرآن کریم میں ران یا راین آیا ہے كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (مشکوٰۃ ازمسند احمد وترمذی ) اور ترمذی نے سند صحیح کے ساتھ بروایت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرلے جو صاف ہو جاتا ہے (قرطبی) 
(٢) نصیحت ناصح کے لئے ہر حال میں مفید ہے مخاطب قبول کرے یا نہ کرے:
اس آیت میں ازلی کافروں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وعظ ونصیحت کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر قرار دئیے گئے ہیں مگر ان کے ساتھ علیہم کی قید لگا کر بتلا دیا کہ یہ برابری کفار کے حق میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حق میں نہیں بلکہ ان کو تو تبلیغ وتعلیم اور اصلاح خلق کی کوشش کا ثواب بہرحال ملے گا اسی لئے پورے قرآن کریم کی کسی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایسے لوگوں کو بھی دعوت ایمان دینے سے روکا نہیں گیا اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دعوت دین اور اصلاح کا کام کرتا ہے خواہ مؤ ثر ہو یا نہ ہو اس کو بہرحال اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے،
ایک شبہ کا جواب:
اس آیت کا مضمون وہی ہے جو سورۃ مطففین کی اس آیت کا ہے كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (١٤:٨٣) یعنی ایسا نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے زنگ بیٹھ گیا ہے جس میں حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ان بداعمالیاں اور سرکشی ہی ان کے دلوں کا زنگ بن گیا ہے اسی زنگ کو آیت مذکورہ میں مہر یا پردہ کے لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے دلوں پر مہر کردی اور جو اس کو ماؤف کردیا ہے تو یہ اپنے کفر میں معذور ہوگئے پھر ان کو عذاب کیسا ؟وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے شرارت وعناد کر کے باختیار خود اپنی استعداد برباد کرلی ہے اس لئے اس تباہی استعداد کے فاعل اور مسبب یہ خود ہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے تمام افعال کے خالق ہونے کی حیثیت سے اس جگہ مہر کرنے کو اپنی طرف نسبت کر کے یہ بتلادیا کہ جب ان لوگوں نے قبولِ حق کی صلاحیت واستعداد کو اپنے اختیار سے تباہ کرنا چاہا تو سنت الٓیہ کے مطابق ہم نے وہ بد استعداد کی کیفیت ان کے قلوب اور حواس میں پیدا کردی ۔

                            www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk


Read More

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.006

Surat Al-Baqarah


تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

خلاصہ تفسیر 
بیشک جو لوگ کافر ہوچکے ہیں برابر ہے ان کے حق میں خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے (یہ بات ان کافروں کے متعلق ہے جن کی نسبت خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوگا عام کافر مراد نہیں ان میں بہت سے لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے) بند لگا دیا ہے اللہ نے انکے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لئے سزا بڑا ہے،
معارف ومسائل 
خلاصہ مضمون مع ربط ۔
سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں قرآن کریم کا کتاب ہدایت اور ہر شک وشبہ سے بالاتر ہونا بیان کرنے کے بعد ان خوش نصیب لوگوں کا ذکر تھا، جنہوں نے اس کتاب ہدایت سے پورا فائدہ اٹھایا جن کو قرآن کی اصطلاح میں مؤمنین اور متقین کا لقب دیا گیا ہے اور ان حضرات کی مخصوص صفات وعلامات بھی بیان کی گئیں اس کے بعد پندرہ آیتوں میں ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس ہدایت کو قبول نہیں کیا بلکہ انکار وعناد سے پیش آئے پھر ان لوگوں میں دو گروہ تھے ایک وہ جنہوں نے کھل کر انکار ومخالفت کا راستہ اختیار کیا جن کو قرآن کی اصطلاح میں کافر کہا گیا دوسرے وہ لوگ جو اپنی اخلاقی پستی اور دنیا کی ذلیل اغراض کی بنا پر یہ جرأت بھی نہ کرسکے کہ ضمیر کی آواز اور دلی عقیدے کو صاف طور پر ظاہر کردیتے بلکہ دھوکہ اور فریب کی راہ اختیار کی مسلمانوں سے یہ کہتے کہ ہم مسلمان ہیں، قرآن اور اس کی ہدایات کو مانتے ہیں تمہارے ساتھ ہیں اور دلوں میں ان کے کفر وانکار تھا کفار کی مجسلوں میں جاکر یہ کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور ان کے راز معلوم کرنے کے لئے ہم ان سے ملتے ہیں ، 
اس گروہ کا نام قرآن کی اصطلاح میں منافق ہے یہ پندرہ آیتیں ہیں جو قرآن کو نہ ماننے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں ان میں سے مذکورہ دو آیتوں میں کھلے کافروں کا ذکر ہے اور آگے تیرہ آیتوں میں منافقین کا ذکر اور ان کے متعلقہ حالات وعلامات اور ان کا انجام مذکورہ ہے،
ان تمام آیات کی تفصیل پر یک جائی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ایک طرف تو چشمہ ہدایت کا پتہ دے دیاکہ وہ قرآن ہے اور دوسری طرف تمام اقوام کو اسی ہدایت کے قبول یا انکار کے معیار سے دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک ہدایت یافتہ جن کو مؤمنین ومتقین کہا جاتا ہے دوسرے ہدایت سے انحراف وانکار کرنے والے جن کو کافر یا منافق کہا جاتا ہے ، 
پہلی قسم وہ ہے جن کا راستہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں طلب کیا گیا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جن کے راستہ سے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ میں پناہ مانگی گئی ہے،
قرآن کریم کی اس تعلیم سے ایک اصولی مسئلہ یہ بھی نکل آیا کہ اقوام عالم کے حصوں یا گروہوں میں ایسی تقسیم جو تقسیم جو اصول پر اثر انداز ہوسکے وہ صرف اصول ونظریات ہی کے اعتبار سے ہوسکتی ہے، نسب، وطن ، زبان، رنگ اور جغرافیائی حالات ایسی چیزیں نہیں جن کے اشتراک یا اختلاف سے قوموں کے ٹکڑے کئے جاسکیں ، قرآن کریم کا اس بارے میں واضح فیصلہ بھی سورۃ تغابن میں مذکور ہے،
خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢:٦٤) یعنی اللہ نے تم سب کو پیدا کیا ، پھر کچھ لوگ تم میں سے مومن اور کچھ کافر ہوگئے،
مذکور الصدر دو آیتوں میں حق تعالیٰ نے ان کافروں کا ذکر فرمایا ہے جو اپنے کفر وانکار میں ضد اور عناد تک پہنچ گئے تھے اور اس ضد کی وجہ سے وہ کسی حق بات کو سننے اور روشن دلیل کو دیکھنے کے لئے بھی تیار نہ تھے، ایسے لوگوں کے بارے میں سُنّۃ اللہ یہی ہے کہ ان کو ایک سزا اسی جہان میں نقدیہ دی جاتی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، کانوں ، آنکھوں کو حق وصدق کے قبول کرنے سے بند کردیا جاتا ہے ، ان کا حال حق وصدق کے بارے میں ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا نہ ان کو سمجھنے کی عقل نہ دیکھنے کے لئے آنکھیں نہ سننے کے لئے کان۔ آیت میں ایسے لوگوں کا عذاب عظیم میں مبتلا ہونا ذکر کیا گیا ہے،
کفر کی تعریف :
کفر کے لفظی معنی چھپانے کے ہیں ناشکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے اصطلاح شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ان میں سے کسی چیز کے انکار کا نام کفر ہے مثلاً ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں اور اس کا ثبوت قطعی ویقینی ہے ان سب چیزوں کی دل سے تصدیق کرنا اور حق سمجھنا اس لئے جو شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ان تعلیمات میں سے جن کا ثبوت یقینی اور قطعی ہے کسی ایک کو بھی حق نہ سمجھے اور اس کی تصدیق نہ کرے وہ کافر کہلائے گا،
اِنذار کے معنیٰ:
لفظ انداز ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو جیسا کہ ابشار ایسی خبر دینے کو کہتے ہیں جس سے سرور پیدا ہو، اردو زبان میں اس کا ترجمہ ڈرانے سے کیا جاتا ہے مگر درحقیقت مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے بلکہ ڈرانا جو شفقت ورحمت کی بناء پر ہو جیسے اولاد کو آگ سے، سانپ بچھوّ اور درندوں سے ڈرایا جاتا ہے اسی لئے جو ڈاکو، چور ظالم ، کسی انسان کو دھمکاتے ڈراتے ہیں اس کو انذار اور ان لوگوں کو نذیر نہیں کہا جاتا ، انبیاء کو خصوصیت سے نذیر کا لقب دیا جاتا ہے کہ وہ ازراہ شفقت آئندہ آنے والے مصائب سے ڈراتے ہیں انبیاء کے لئے اس لفظ کو اختیار کرنے میں اس کی ہدایت ہے کہ مصلح مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ مخاطب کی خیرخواہی کیساتھ ہمدردی سے گفتگو کرے محض ایک کلمہ پہنچا دینا مقصد نہ ہو،
اس آیت میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ ضدی اور معاند کفار جو حقیقت کو پہچاننے کے باوجود کفر وانکار پر جمے ہوئے ہیں یا اپنے تکبر اور کج رائی کی بناء پر کسی حق بات کو سننے اور روشن دلائل کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کی اصلاح اور ایمان کے متعلق جو آپ کوشش کرتے ہیں ان کے لئے مؤ ثر ثابت نہ ہوگی بلکہ آپ کا کوشش کرنا اور نہ کرنا ان کے حق میں برابر ہے،
اس کی وجہ اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے سوچنے سمجھنے کے جتنے راستے تھے وہ سب بند ہیں اس لئے ان سے اصلاح کی توقع رکھنا درد سر ہے،
کسی چیز پر مہر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے ، ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کا یہی مطلب ہے کہ ان میں قبول حق کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی،
 ان کی اس حالت کو دلوں اور کانوں پر مہر کرنے سے تعبیر فرمایا ہے مگر آنکھوں کے لئے مہر کے بجائے پردہ پڑنے کا ذکر کیا گیا ، اس میں حکمت یہ ہے کہ دلوں میں آنے والا کوئی مضمون یا کوئی فکر وخیال کسی ایک سمت سے نہیں آسکتی ہے ان کی بندش جب ہی ہوسکتی ہے جب ان پر مہر کردی جائے بخلاف آنکھوں کے کہ ان کا ادراک صرف ایک سمت یعنی سامنے سے ہو سکتا ہے اور جب سامنے پردہ پڑجائے تو آنکھوں کا ادراک ختم ہوجاتا ہے (مظہری

              

                           www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk

Read More

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.005


Surat Al-Baqarah


                              www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk

Read More

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.004

Surat Al-baqarah
Ayah No.004

تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

(آیت) وَ الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ یعنی متقین ایسے ہیں کہ ایمان رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جا چکی ہیں اور آخرت پر بھی وہی لوگ یقین رکھتے ہیں ، 
اس آیت میں متقین کی باقی صفات کا بیان ہے جس میں ایمان بالغیب کی کچھ تفصیل اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ عہد رسالت میں مؤمنین متقین دو طرح کے حضرات تھے ایک وہ جو پہلے مشرکین میں سے تھے پھر مشرف باسلام ہوئے دوسرے وہ جو پہلے اہل کتاب یہودی یا نصرانی تھے پھر مسلمان ہوگئے اس سے پہلی آیت میں طبقہ کا ذکر تھا اور اس آیت میں دوسرے طبقہ کا ذکر ہے اسی لئے اس آیت میں قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی بھی تصریح فرمائی گئی کہ وہ حسب تصریح حدیث دوسرے ثواب کے مستحق ہیں ایک پچھلی کتابوں کے زمانے میں ان پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب دوسرے قرآن کے زمانے میں قرآن پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا آج بھی ہر مسلمان کے لئے لازم ہے فرق اتنا ہے کہ آج ان کتابوں پر ایمان اس طرح ہوگا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں نازل فرمایا تھا وہ سب حق ہے اور اس زمانے کے لئے وہی واجب العمل تھا مگر قرآن نازل ہونے کے بعد چونکہ پچھلی کتابیں اور شریعتیں سب منسوخ ہوگیئں تو اب عمل صرف قرآن ہی پر ہوگا،
مسئلہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل :
آیت کے اس طرز بیان سے ایک اہم اصولی مسئلہ بھی نکل آیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) آخری نبی ہیں اور آپ کی وحی آخری وحی کیونکہ اگر قرآن کے بعد کوئی اور کتاب یا وحی بھی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں اور وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب اور وحی پر ایمان لانے کا ذکر بھی ضروری ہوتا بلکہ اس کی ضرورت زیادہ تھی کیونکہ تورات وانجیل اور تمام کتب سابقہ پر ایمان لانا تو پہلے سے جاری اور معلوم تھا اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد بھی سلسلہ وحی اور نبوت جاری ہوتا تو ضرورت اس کی تھی کہ اس کتاب اور اس نبی کا ذکر زیادہ اہتمام سے کیا جاتا جو بعد میں آنے والے ہوں تاکہ کسی کو اشتباہ نہ رہے،
مگر قرآن نے جہاں ایمان کا ذکر کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا بعد میں آنے والی کسی وحی یا نبی کا کہیں قطعاً ذکر نہیں پھر صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ قرآن کریم میں یہ بھی مضمون اول سے آخر تک مختلف مقامات میں چالیس پچاس آیتوں میں آیا ہے سب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے انبیاء پہلی وحی ، پہلی کتابوں کا ذکر ہے کسی ایک آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی یانبی آنے والا ہے جس پر ایمان لانا ہے مثلاً ارشاد ہے:
(١) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ (سورہ نحل :٤٣) (٢) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ (سورہ مومن :٧٨) (٣) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا (سورہ روم :٤) (٤) وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ (سورہ نساء :٦٠) (٥) وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ (سورہ زمر:٦٥) (٦) كَذٰلِكَ يُوْحِيْٓ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ (سورہ شوریٰ :٣) (٧) كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ (سورہ بقرہ :١٨٣) (٨) سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا (سورہ اسرائیل :٧٧) 
ان آیات میں اور ان کی امثال دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی وکتاب بھیجنے کا ذکر ہے سب کے ساتھ مِنْ قَبْلِ اور مِنْ قَبْلِكَ کی قید لگی ہوئی ہے کہیں مِنْ بَعدِ کا اشارہ تک نہیں اگر ختم نبوت اور انقطاع وحی کا دوسری آیات میں صراحۃ ذکر نہ ہوتا تو قرآن کا یہ طرز ہی اس مضمون کی شہادت کے لئے کافی تھا مسئلہ ختم نبوت پر قرآنی تصریحات اور احادیث متواترہ کی شہادت اور امت کا اجماع تفصیل کے ساتھ دیکھنا ہو تو میرا رسالہ ختم نبوت دیکھا جائے،
متقین کی تفسیر میں صفت ایمان بالآخرۃ :
اس آیت میں متقین کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آخرت سے مراد وہ دار آخرت ہے جس کو قرآن میں دارالقرار ، دارالحیوان اور عقبیٰ نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے اور پورا قرآن اس کے ذکر اور اس کے ہولناک حالات سے بھرا ہوا ہے،
آخرت پر ایمان ایک انقلابی عقیدہ ہے:
آخرت پر ایمان لان اگرچہ ایمان بالغیب کے لفظ میں آچکا ہے مگر اس کو پھر صراحۃً اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ اجزائے ایمان میں اس حیثیت سے سب میں اہم جز ہے کہ مقفضائے ایمان پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا اسی کا اثر ہے،
اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق واعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں بھی تمام اقوام عالم کے مقابلے میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا اور جو عقیدہ توحید ورسالت کی طرح تمام انبیاء اور تمام شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلا آتا ہے،
وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی اور اسی کی عیش وعشرت ان کا انتہائ مقصود ہے اسی کی تکلیف کو تکلیف سمجھتے ہیں آخرت کی زندگی اور اعمال کے حساب کتاب اور جزاء وسزا کو وہ نہیں مانتے وہ جب جھوٹ ، سچ اور حلال حرام کی تفریق کو اپنی عیش وعشرت میں خلل انداز ہوتے دیکھیں تو ان کو جرائم سے روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ، حکومت کے تعزیری قوانین قطعاً انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لئے کافی نہیں عادی مجرم تو ان سزاؤں کے عادی ہوہی جاتے ہیں کوئی شریف انسان اگر تعزیری سزا کے خوف سے اپنی خواہشات کو ترک بھی کرے تو اسی حد تک کہ اس کو حکومت کی داروگیر کا خطرہ ہو، خلوتوں میں اور راز دارانہ طریقوں پر جہاں حکومت اور اس کے قوانین کی رسائی نہیں ، اسے کون مجبور کرسکتا ہے کہ اپنی عیش وعشرت اور خواہش کو چھوڑ کر پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے،
ہاں وہ صرف عقیدۂ آخرت اور خوف خدا ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت وخلوت میں یکساں ہوسکتی ہے وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں اور ان پر پہرہ چوکیوں میں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے کوئی کوئی لکھنے والا میرے اعمال کو لکھ رہا ہے،
یہی وہ عقیدہ تھا جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور میں ایسا پاکباز معاشرہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر، چال چلن دیکھ کر لوگ دل وجان سے اسلام کے گرویدہ ہوجاتے تھے، یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں بالاٰخرۃ کے ساتھ یؤ منون نہیں بلکہ یوقنون استعمال فرمایا گیا ہے، کیونکہ ایمان کا مقابل تکذیب ہے، اور ایقان کا مقابل شک وتردد اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصد کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کا ایسا یقین ضروری ہے جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو، متقین کی یہی صفت ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کے سامنے پیشی اور حساب کتاب ، پھر جزا وسزا کا نقشہ ہر وقت ان کے سامنے رہتا ہے،
وہ شخص جو دوسروں کا حق غصب کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے لڑتا ہے، جھوٹی گواہی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف حرام مال کمانے اور کھانے میں لگا ہوا ہے یا دنیا کے ذلیل مقاصد حاصل کرنے کے لئے خلاف شرع ذرائع اختیار کر رہا ہے، وہ ہزار بار آخرت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور ظاہر شریعت میں اس کو مومن کہا بھی جائے لیکن قرآن جس ایقان کا مطالبہ کرتا ہے وہ اسے حاصل نہیں اور وہ ہی انسان کی زندگی میں انقلاب لانیوالی چیز ہے اسی کے نتیجے میں متقین کو ہدایت اور کامیابی کا وہ انعام دیا گیا ہے جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی پانچویں آیت میں ہے، اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی بس یہی لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ لوگ ہیں پورے کامیاب ،

                         www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk


Read More

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

AYAH NO.003

Surat Al-Baqarah


تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

 (آیت) الَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ:
یعنی خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین کرتے ہیں بےدیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو، اور جو ہم نے روزی دی ہے اس سے کچھ خرچ کرتے ہیں ، 
اس آیت میں متقین کی تین صفات بیان کی گئی ہیں : ایمان بالغیب ، اقامت صلوٰۃ ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اس کے ضمن میں بہت سے اہم مسائل آگئے ہیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے،
پہلا مسئلہ ایمان کی تعریف:
ایمان کی تعریف کو قرآن کریم نے يُؤ ْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ کے صرف دو لفظوں میں پورا بیان کردیا ہے لفظ ایمان اور غیب کے معنی سمجھ لئے جاویں تو ایمان کی پوری حقیقت اور تعریف سمجھ میں آجاتی ہے،
لغت میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے اسی لئے محسوسات ومشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے مثلا شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بناء پر ہے اور اصطلاح شرع میں خبر رسول کو بغیر مشاہدہ کے محض رسول کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جو بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں، اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں، نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہوسکے اور نہ ہاتھ سے چھو کر ان کو معلوم کیا جاسکے،
قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات بھی آجاتی ہیں تقدیری امور جنت ودوزخ کے حالات ، قیامت اور اس میں پیش آنیوالے واقعات بھی ، فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی جس کی تفصیل اسی سورۃ بقرہ کے ختم پر اٰمَنَ الرَسُول میں بیان کی گئی ہے گویا یہاں مجمل کا بیان ہوا ہے اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا،
تو اب ایمان بالغیب کے معنے یہ ہوگئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جو ہدایات وتعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے (عقیدہ طحاوی عقائدنسفی وغیرہ ) 
اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلایا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے وہ تو ابلیس وشیطان اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صدق کا یقین تھا مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مومن نہیں ، 
دوسرا مسئلہ اقامت صلو ٰۃ :
اقامت کے معنی محض نماز پڑھنے کے نہیں بلکہ نماز کو ہر جہت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے جس میں نماز کے تمام فرائض ، واجبات ، مستحبات ، اور پھر ان پر دوام والتزام یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں اور صحیح یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئی خاص نماز مراد نہیں بلکہ فرائض وواجبات اور نفلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے خلاصہ مضمون یہ ہوا کہ وہ لوگ جو نمازوں کی پابندی بھی قواعد شرعیہ کے مطابق کرتے ہیں ، اور ان کے پورے آداب بھی بجا لاتے ہیں،
تیسرا مسئلہ ! اللہ کی راہ میں خرچ کرنا:
اس میں بھی صحیح اور تحقیقی بات جس کو جمہور مفسّرین نے اختیار فرمایا ہے یہی ہے کہ ہر قسم کا وہ خرچ داخل ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے خواہ فرض زکو ٰۃ ہو، یا دوسرے صدقات واجبہ یا نفلی صدقات وخیرات، کیونکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ انفاق استعمال ہوا عموماً نفلی صدقات میں یا عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے زکوٰۃ فرض کے لئے عموماً لفظ زکوٰۃ ہی آیا ہے،
اس مختصر جملہ میں لفظ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ پر غور کیجئے تو ایک یہ لفظ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ایک قوی داعیہ شریف انسان کے دل میں پیدا کردیتا ہے کہ جو کچھ مال ہمارے پاس ہے یہ سب خدا ہی کا عطا کیا ہوا اور اسی کی امانت ہے، اگر ہم اس تمام مال کو بھی اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے خرچ کردیں تو حق اور بجا ہے اس میں بھی ہمارا کوئی احسان نہیں ، 
جان دی ہوئی اسی کی تھی ، 
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،
اس پر مزید اضافہ لفظ مِمَّا نے کردیا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دیئے ہوئے مال کو بھی پورا خرچ کرنا نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ خرچ کرنا ہے،
یہاں متقین کی صفات کا بیان کرتے ہوئے اول ایمان بالغیب کا ذکر فرمایا گیا پھر اقامت نماز اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ایمان کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ وہی اصل الاصول اور سارے اعمال کی مقبولیت کا دارومدار ہے لیکن جب ایمان کے ساتھ اعمال کا بیان کیا جائے، تو ان کی فہرست طویل اور فرائض وواجبات کی تعداد کثیر ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال میں سے صرف دو عمل نماز اور انفاق مال کے ذکر پر اکتفا کرنے میں کیا راز ہے؟
اس میں غالبا اسی طرف اشارہ ہے کہ جتنے اعمال انسان پر فرض یا واجب ہیں ان کا تعلق یا انسان کی ذات اور بدن سے ہے یا اس کے مال سے بدنی اور ذاتی عبادات میں سب سے اہم نماز ہے، اس کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا اور مالی عبادات سب کی سب لفظ انفاق میں داخل ہیں ، اس لئے درحقیقت یہ تنہا دو اعمال کا ذکر نہیں بلکہ تمام اعمال وعبادات ان کے ضمن میں آگئے اور پوری آیت کے یہ معنی ہوگئے کہ متقین وہ لوگ ہیں جن کا ایمان بھی کامل ہے اور عمل بھی اور ایمان وعمل کے مجموعہ کا نام ہی اسلام ہے گویا اس آیت میں ایمان کی مکمل تعریف کے ساتھ اسلام کے مفہوم کی طر ف بھی اشارہ ہوگیا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس جگہ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ ایمان اور اسلام میں کیا فرق ہے؟
ایمان اور اسلام میں فرق :
لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت وفرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب اعضاء وجوارح لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب زبان سے اس تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو،
خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن وحدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں ، 
جب اسلام یعنی ظاہری اقرار وفرمانبرداری کے ساتھ دل میں ایمان نہ ہو تو اس کو قرآن کی اصطلاح میں نفاق کا نام دیا گیا ہے اور اس کو کھلے کفر سے زیادہ شدید جرم ٹھہرایاہے،
(٤:١٤٧) یعنی منافقین جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں رہیں گے،
اسی طرح ایمان یعنی تصدیق قلبی کے ساتھ اگر اقرار واطاعت نہ ہو تو اس کو بھی قرآنی نصوص میں کفر ہی قرار دیا ہے ارشاد يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُم (٢:١٤٦) یعنی یہ کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کی حقانیت کو ایسے یقینی طریق پر جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ، 
اور دوسری جگہ ارشاد ہے،
وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا (١٤:٢٧) یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں ان کا یقین کامل ہے اور ان کی یہ حرکت محض ظلم وتکبّر کی وجہ سے ہے،
میرے استاذ محترم حضرت العلاّمہ سیّد محمد انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ ، اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتے تھے کہ ایمان اور اسلام کی مسافت ایک ہے فرق صرف ابتداء اسلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچ کر مکمل سمجھا جاتا ہے اگر تصدیق قلبی ظاہری اقرار واطاعت تک نہ پہنچنے وہ تصدیق ایمان معتبر نہیں ، اسی طرح اگر ظاہری اطاعت واقرار تصدیق قلبی تک نہ پہنچنے تو وہ اسلام معتبر نہیں ، 
امام غزالی اور امام سبکی کی بھی یہی تحقیق ہے اور امام ابن ہمام نے مسامرہ میں اس تحقیق پر تمام اہل حق کا اتفاق ذکر کیا 
ہے،

                           www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk



Read More

Monday, February 16, 2015

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

                                         AYAH NO. 002

Surah Al-Baqarah


                                               تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

(آیت) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ لفظ ذٰلِكَ کسی دور کی چیز کی طرف اشارے کے لئے آتا ہے اور كِتٰب سے مراد قرآن کریم ہے، ریب کے معنی شک وشبہ، معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں یہ موقع بظاہر اشارۂ بعید کا نہیں تھا کیونکہ اسی قرآن کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو لوگوں کے سامنے ہے مگر اشارۂ بعید سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی یہ سارا قرآن اس درخواست کا جواب بصورت قبولیت اور صراط مستقیم کی تشریح وتفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے یہ دعا سن لی اور قرآن کریم بھیج دیا جو ہدایت کا آفتاب ہے جو شخص ہدایت چاہتا ہے وہ اس کو پڑھے سمجھے اور اس کے مقتضٰی پر عمل کرے ، 

اور پھر اس کے متعلق ارشاد ہے کہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کیونکہ کسی کلام میں شک وشبہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ خود کلام میں غلطی ہو تو وہ کلام محل شک وشبہ ہو جاتا ہے دوسرے یہ کہ سمجھنے والے کی فہم میں غلطی ہو، اس صورت میں کلام محلِ شک وشبہ نہیں ہوتا گو کج یا کم فہمی کی وجہ سے کسی کو شبہ ہوجائے جس کا ذکر خود قرآن کریم میں چند آیتوں کے بعد ان کنتم فی ریبٍ میں آیا ہے، اس لئے ہزاروں کم فہموں یا کج فہموں کے شبہات واعتراضات کے باوجود یہ کہنا صحیح ہے کہ اس کتاب میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں



ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لئے یعنی مخصوص ہدایت جو نجات آخرت کا ذریعہ بنے وہ متقین ہی کا حصہ ہے اگرچہ قرآن کی ہدایت نہ صرف نوع بشر کے لئے بلکہ تمام کائنات عالم کے لئے عام ہے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے کہ ہدایت کے تین درجے ہیں ایک درجہ تمام نوع انسان بلکہ تمام حیوانات وغیرہ کے لئے بھی عام اور شامل ہے دوسرا درجہ مؤمنین کے لئے خاص اور تیسرا درجہ مقربین خاص کے لئے مخصوص ہے پھر اس کے درجات کی کوئی حد وانتہاء نہیں قرآن کریم کے مختلف مواقع میں کہیں ہدایت عامہ کا ذکر آیا ہے کہیں ہدایت خاصہ کا اس جگہ ہدایت ذکر ہے اس لئے متقین کی تخصیص کی گئی ہے اس پر یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہدایت کی زیادہ ضرورت تو ان لوگوں کو ہے جو متقی نہیں کیونکہ مذکورہ تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ اس جگہ متقین کی خصوصیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن غیر متقی لوگوں کے لئے ہدایت نہیں ہے،

متقین کی خاص صفات :

اس کے بعد دو آیتوں میں متقین کی مخصوص صفات وعلامات بیان کر کے یہ بتلادیا گیا ہے کہ یہ جماعت ہدایت یافتہ ہے انھیں کا راستہ صراط مستقیم ہے جس کو سیدھا راستہ مطلوب ہو اس جماعت میں شامل ہوجائے ان کے ساتھ رہے ان کے عقائد ونظریات اور اعمال واخلاق کو اپنا نصب العین بنائے ، 
شاید یہی وجہ ہے کہ متقین کی مخصوص صفات بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے، اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یعنی یہی لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو ان کے رب کی طرف سے ملی ہے اور یہی لوگ ہیں پورے کامیاب،
متقین کی صفات جو ان دو آیتوں میں بیان ہوئی ہیں ان میں ایمان کی اجمالی تعریف اور اس کے بنیادی اصول بھی آگئے ہیں ور عمل صالح کے بنیادی اصول بھی اس لئے ان صفات کو ذرا وضاحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے



                           www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk

Read More

Surat Al-Baqarah سورتہ البقرہ

                  AYAH NO.001

Surat Al-Baqarah



               تفسیر معارف القرآن : مفتی محمد شفیع صاحب

معارف ومسائل 
حروف مقطعہ جو بہت سی سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تحقیق:
بہت سی سورتوں کے شروع میں چند حرفوں سے مرکب ایک کلمہ لایا گیا ہے جیسے الۗمّۗ، حٓمٓ، الۗمٓصٓ وغیرہ ان کو اصطلاح میں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہر حرف جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے ، الف ، لام ، میم ، حروف مقطعہ جو اوائل سور میں آئے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ اسماء الہیہ کے رموز ہیں مگر جمہور صحابہ وتابعین اور علماء امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں جس کا علم سوائے خداتعالیٰ کے کسی کو نہیں اور ہوسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کا علم بطور ایک راز کے دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی ہو اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان حروف کی تفسیر وتشریح میں کچھ منقول نہیں امام تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار فرمایا ہے ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ؛
عامر شعبی ، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدّثین نے فرمایا ہے کہ ہر آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص رموز واسرار ہوتے ہیں اسی طرح یہ حروف مقطعہ قرآن میں حق تعالیٰ کا راز ہے اس لئے یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے ہمارے لئے ان میں بحث وگفتگو بھی جائز نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے فائدے سے خالی نہیں اول تو ان پر ایمان لانا پھر ان کا پڑھنا ہمارے لئے ثواب عظیم ہے دوسرے ان کے پڑھنے کے معنوی فوائد وبرکات ہیں جو اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں مگر غیب سے وہ ہمیں پہنچتے ہیں ، 
پھر فرمایا:
حضرت صدیق اکبر ، فاروق اعظم ، عثمان غنی ، علی مرتضیٰ ، عبداللہ بن مسعود وغیرہ جمہور صحابہ کا ان حروف کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں ، ہمیں ان پر ایمان لانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور جس طرح آئے ہیں ان کی تلاوت کرنا چاہئے مگر معنی معلوم کرنے کی فکر میں پڑنا درست نہیں ، 
ابن کثیر نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے اسی مضمون کو ترجیح دی ہے اور بعض اکابر علماء سے جو ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل وتنبیہ اور تسہیل مقصود ہے یہ نہیں کہ امر وحق تعالیٰ یہ ہے اس لئے اس کو بھی غلط کہنا تحقیق علماء کے خلاف ہے،

                              www.life4islam786.blogspot.com

 www.life4islam786.tk



Read More

Tuesday, January 13, 2015

© Life 4 Islam All rights reserved | Designed By Blogger Templates